راحیلہ داوُت: سنکیانگ، چین میں ایک اور مسلم اسکالر کو پراسرار عمر قید کی سزا
ایغور اسکالر راحیلہ داوُت، جو اپنے
لوگوں کی لوک داستانوں اور روایات میں مہارت کے لیے مشہور ہیں، کو عمر قید کی سزا
سنا دی گئی۔
سان فرانسسکو میں واقع 'دوئی ہوا
فاؤنڈیشن' کی رپورٹ کے مطابق یہ پریشان کن صورتحال دسمبر 2018 میں ریاستی سلامتی
کو خطرے میں ڈالنے سے متعلق الزامات پر ہونے والے ایک خفیہ مقدمے سے ہوئی۔ اُن کی
اپیل کے باوجود ان کی سزا برقرار رکھی گئی۔
دوئی ہوا فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر
جان کام نے راحیلہ داؤت کی سزا پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اسے "ظالمانہ
سانحہ" اور ایغور برادری اور تعلیمی آزادی کے حامیوں کے لیے ایک اہم نقصان
قرار دیا ہے۔ پروفیسر راحیلہ داوُت سنکیانگ یونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات
انجام دیتی رہی ہیں اور وہ یونیورسٹی کے ایتھنک اقلیت اور لوک داستان ریسرچ سینٹر کی بانی بھی ہیں۔
راحیلہ داوُت کی گمشدگی 2017 کے اواخر
میں ایک حکومتی کریک ڈاؤن کے دوران پیش آئی جس میں خاص طور پر اویغور آبادی کو
نشانہ بنایا گیا، جو کہ چین کے شمال مغربی سنکیانگ کے علاقے میں رہنے والا ترکی
نسل کا ایک مسلمان قبیلہ ہے۔
برسوں تک ان کے حالات اور ٹھکانے کے
بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا، اور چینی حکام نے اس کے خلاف الزامات کے بارے میں
تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔ رواں ماہ، 'دوئی ہوا فاؤنڈیشن' نے چینی حکومت کی ایک دستاویز
کا پردہ فاش کیا جس میں اس کی عمر قید کی سزا کا انکشاف کیا گیا تھا۔
راحیلہ داوُت، سنکیانگ اور وسطی ایشیا
میں مقدس اسلامی مقامات اور ایغور ثقافتی اقدار پر اپنے تحقیقی مقالوں اور کتابوں
کی وجہ سے بین الاقوامی شناخت رکھتی ہیں۔ کیمبرج اور یونیورسٹی آف پنسلوانیا جیسے
اداروں میں بطور وزٹنگ اسکالر خطاب کر چکی ہیں۔
داوُت، ان 400 سے زیادہ ممتاز ماہرین
تعلیم، مصنفین اور فنکاروں میں سے ایک ہیں جن کو سنکیانگ میں قید کیا گیا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت کے اقدامات کا مقصد ایغور ثقافت، زبان اور شناخت
کو کمزور اور ختم کرنا ہے۔
اکیڈمیا سینیکا کے ایک محقق اور داوُت
کے سابق مترجم جوشوا فری مین نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے ایغور کے دانشوروں کو
نشانہ بنایا گیا اور ان کے ساتھ ممتاز رویہ اپنایا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ راحیلہ داوُت
کو ان کے کام کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے ایغور ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ یہ برتاؤ
کیا گیا ہے۔
ان کی عمر قید کی خبر نے فری مین اور
ایغور کے دیگر ماہرین تعلیم کو چونکا دیا ہے، کیونکہ داوت چینی حکومت کے خلاف کسی
سرگرمی میں ملوث نہیں تھیں۔ داوت چینی کمیونسٹ پارٹی کی رکن ہیں اور انہوں نے
گرفتاری سے قبل چین کی وزارت ثقافت سے اپنی گراں قدر خدمات کے حوالے سے انعامات
اور ایوارڈ حاصل کر رکھے تھے۔
راحیلہ داوت کی بیٹی اکیدہ پُلاتی نے
گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے اور اپنی ماں کی بے گناہی کا اظہار کیا اور ان کی عمر قید
کی سزا کو منسوخ کر کے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ماں کو ایک
ناقابل یقین حد تک مخلص اور محنتی خاتون کے طور پر بیان کیا جو معاشرے میں مثبت
کردار ادا کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ تو جانتی تھیں
کہ چینی حکومت ایغوروں پر تشدد کر رہی ہے لیکن وہ اتنے ظلم کی توقع ہرگز نہیں رکھتی
تھیں کہ حکومت چین ان کی ماں کو عمر قید کی سزا سنا دے۔ یہ ظلم توقع سے کہں بڑھ کر
ہے۔
برسلز میں مقیم ایک ایغور نسلی موسیقی
کی ماہر مقدس مجیت نے راحیلہ داوت کو سکالرز کے لیے ایک استاد اور سرپرست کے طور
پر تسلیم کیا ہے۔ مجیت نے کہا ہے کہ راحیلہ داوت، ایغور شناخت کی محافظ ہیں اوراس
شناخت کو مٹانا چینی حکومت کا مقصد ہے۔
اس پریشان کن صورتحال نے سنکیانگ میں
ایغور مسلمانوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں جاری تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایک
اندازے کے مطابق 10 لاکھ سے زیادہ ایغور چین کے دور افتادہ مغربی علاقے میں موجود
"انسداد انتہا پسندی مراکز" میں زیر حراست ہیں۔
سنکیانگ برسوں سے سیکیورٹی کے گھٹن
زدہ حصار میں گھرا ہوا ہے، خاص طور پر 2009 سے جب علاقائی دارالحکومت ارومچی میں
خطرناک حکومت مخالف فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ چین نے انتہا پسندی اور دہشت گردی سے
نمٹنے کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے اقدامات کا دفاع کیا ہے، لیکن بین الاقوامی
جانچ اور مذمت جاری ہے۔
إرسال تعليق