تھانا بوٹس کا عروج
ایسی حیرت انگیز ٹیکنالوجیز اور ایپلی
کیشنز وجود میں آ چکی ہیں جو مصنوعی ذہانت (اے۔ آئی) کا استعمال کرتے ہوئے اس بات
کو ممکن بناتی ہیں کہ آپ اپنے فوت شدہ پیاروں کے ساتھ بات چیت کر سکیں۔ "تھانابوٹس" کی اصطلاح مرنے والے کے ڈیٹا کی بنیاد پر چیٹ بوٹس بنانے کے لیے اے آئی
کے استعمال کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔ مثال کے طور پر ویب سائٹ "پروجیکٹ
دسمبر" صارفین کو فوت شدہ دوستوں اور خاندان کے افراد سے بات چیت کرنے کے لیےچیٹ بوٹس کو ذاتی ترجیحات
کے مطابق بنانے کی سہولت دیتی ہے۔ چونکہ ٹیکنالوجی اے آئی کے ذریعے فوت شدہ پیاروں
کی ملاقات کوممکن بناتی ہے، لہذا رضامندی، رازداری، اور پیچھے رہ جانے والوں پر
ممکنہ جذباتی اثرات کے بارے میں سوالات سامنے آتے ہیں۔ ان ایپس اور طریقہ کار کی
کچھ مثالیں حسبِ ذیل ہیں:
1۔ ڈیجیٹل اوتار اور چیٹ بوٹس
کچھ کمپنیاں ڈیجیٹل اوتار یا چیٹ بوٹس
بناتی ہیں جو کسی مردہ شخص کے پیچھے چھوڑے گئے ڈیٹا، جیسے ٹیکسٹ میسجز، ای میلز
اور سوشل میڈیا پوسٹس کی بنیاد پر اس کے خط و کتابت کے انداز اور شخصیت کی نقل کرتی
ہیں۔
اس کی ایک مثال پروجیکٹ "ریپلیکا"
ہے جو ایک اے آئی چیٹ بوٹ ہے جسے صارفین سے سیکھنے اور گفتگو کی نقل کرنے کے لیے ڈیزائن
کیا گیا ہے۔ اگرچہ اسے واضح طور پر میت کے ساتھ بات چیت کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا
پھر بھی کچھ صارفین نے اس کے ذریعے اپنے پیاروں جیسی بات چیت کے حصول کو تسلی بخش
اورباعثِ سکون پایا ہے۔
2۔ وراثتی گفتگو
کچھ کمپنیاں ایسی خدمات پیش کرتی ہیں
جو افراد کو پیغامات، یادیں اور مشورے ریکارڈ کرکے ڈیجیٹل میراث بنانے کی اجازت دیتی
ہیں، جن تک اپنے پیاروں کے انتقال کے بعد رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اے آئی ان پیغامات
کی بنیاد پر گفتگو کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
اس کی ایک مثال "ہیئر آفٹر اے آئی"
پلیٹ فارم ہے، جو صارفین کو مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے پیاروں کے لیے
ذاتی نوعیت کے ویڈیو پیغامات بنانے کی اجازت دیتا ہے۔
3۔ ورچوئل ریئلٹی اور آگ مینٹڈ ریئلٹی (وی آر اور اے آر)
کچھ پروجیکٹ وی آر یا اے آر کا
استعمال کرتے ہوئے گہرے تجربات تخلیق کرتے ہیں جہاں صارفین اپنے عزیزوں کی ورچوئل
نمائندگی کے ساتھ مل جل سکتے ہیں۔ ان تجربات میں حقیقت کے احساس کے ساتھ گفتگو
شامل ہو سکتی ہے۔
اگرچہ وی آر اور اے آر خاص طور پر اے آئی کی بنیاد
پر کام نہیں کرتیں لیکن یہ ٹیکنالوجیز مخاطب کی موجودگی کے احساس کو بڑھا سکتی ہیں،
جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ صارفین ایک حقیقی شخص کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔
4۔ چیٹ سروسز اور بوٹس
اے آئی کی ہی مرہونِ منت چیٹ سروسز
اور بوٹس بات چیت کو نقل کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ فطری لینگویج پروسیسنگ
الگورتھم کو اس انداز میں سمجھنے اور جواب دینے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جو
متوفی شخص کی گفتگو کے انداز سے مشابہ ہو۔
مثال کے طور پر "اِٹرنائم"
پروجیکٹ کا مقصد سوشل میڈیا، ای میلز اور دیگر آن لائن سرگرمیوں سے ڈیٹا اکٹھا
کرکے کسی شخص کا ڈیجیٹل ورژن بنانا ہے۔ اس کے بعد صارفین اس ڈیجیٹل شخصیت کے ساتھ
بات چیت کرسکتے ہیں۔
موجودہ جدید ٹیکنالوجیز کے دور میں
مردہ کو زندہ رکھنے کا خیال پہلے سے کہیں زیادہ قابل فہم ہو گیا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی
اور دیگر بڑے لینگوئج ماڈلز جیسے ٹولز کے ذریعے مرنے والے پیاروں کی شبیہ پیدا
کرنے والے چیٹ بوٹس کی تخلیق آسان ہو گئی ہے۔ تاہم، مرنے کے بعد ڈیجیٹل زندگی کو
برقرار رکھنے کا عمل مختلف چیلنجوں، اخلاقی معاشرتی تقاضوں سے بھرا ہوا ہے۔
ڈیجیٹل امرتا کے پیچھے محنت
چیٹ بوٹس کے ذریعے میت کو امر کرنے کا
جذبہ ان ڈیجیٹل اداروں کو درکار وسیع محنت کو نظر انداز کرتا ہے۔ ڈیجیٹل اسٹیٹس کے
انتظام اور وراثت میں ملنے والے سمارٹ ہومز کو نیویگیٹ کرنے سے لے کر الیکٹرانک ریکارڈز
کو محفوظ رکھنے تک، یہ کوشش غیرمعمولی نوعیت کی ہے۔ اس کام میں تشریح کرنے والے،
مواد کے ماڈریٹرز، اور انسانی اور غیر انسانی اداروں کا نیٹ ورک شامل ہے، یہ سبھی
ڈیجیٹل وراثت کی دیکھ بھال میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ تاہم، انسانوں کو بعد از موت ڈیجیٹلی
زندہ رکھنے کا یہ نظام اسے درپیش مسائل کی بنا پر بالآخربند ہو جائے گا۔
ڈیجیٹل امرتا کی ناپائیداری
اے آئی کے ذریعے کی گئی تشبیہ پیدا
کرنے کی ابتدائی کوششیں، جیسے "انٹیلیٹر" کی "ورچوئل اٹرنٹی"
وراثتی مشکلات کو ظاہر کرتی ہیں۔ "لائف ناٹ" جیسے سسٹمز، جو مکمل انسانی
مشابہت کو یقینی بناتے ہیں، کو پرانے سافٹ ویئر جیسی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ مستقل
طور پر خودکار ذخائر کا تسلسل اور ویب سائٹس کا پرانے سوفٹ ویئر کی وجہ سے مسلسل
ناکام ہو کر رک جانا ظاہرکرتا ہے کہ یہ نظام وقت کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہوجائیں
گے۔
مالیاتی اور ماحولیاتی اخراجات
تخلیقی اے آئی کی زندگی جیسی نقلیں
بنانے کی صلاحیت سے متعلق قیاس آرائیاں وسائل کی کھپت کے بارے میں خدشات کو جنم دیتی
ہیں۔ مثلاََ "چیٹ جی پی ٹی" جیسے ماڈلز پر مبینہ طور پر روزانہ 700,000ڈالرز لاگت آنا اس کے متروک ہونے کے خدشے کو ظاہر کرتا ہے۔ مزید برآں، ماحولیاتی
اثرات، بشمول خام مال اور توانائی کا استعمال، موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر ڈیجیٹل
لائف کے وجود کو قائم رکھنا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔
اخلاقی تحفظات
یہ سوال کہ مرنے والوں کی نقلیں بنانے
کا اختیار کس کے پاس ہے اخلاقی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ کیا اس کا اختیار خاندان کے
کسی رکن کے پاس ہونا چاہیے یا آجر، یا کسی کمپنی کے پاس؟ کیونکہ ڈویلپرز اور کمپنیاں
ان چیٹ بوٹس کے وجود کو کنٹرول کرتی ہیں، نہ کہ سوگواران، جو ایک ایسی اجارہ داری
ہے جو انفرادی خواہشات اور یادوں سے متصادم ہو سکتی ہے۔ جوشوا باربیو کی کہانی، جس
میں اس کی فوت شدہ منگیتر کے چیٹ بوٹ کا تذکرہ ہے، خاندان میں ممکنہ جذباتی پیچیدگیوں
اور مختلف نقطہ نظر کی واضح مثال ہے۔
اے آئی کی تخلیقی صلاحیت
اے آئی میں ہونے والی ترقیوں نے تخلیقی
صلاحیتوں کی وسعتوں میں ایسا اضافہ کیا ہے کہ انسانی سوچ کے مطابق تفریح اور
خواہشات کی تکمیل ممکن ہو گئی ہے۔ اگرچہ اس کی مختلف جہتوں میں ترقی اس کی کامیابی
کی دلیل ہے، تاہم مختلف جہتوں میں یہ ترقی بعض معاملات میں ایک چیلنج بن گئی ہے۔
"چیٹ جی پی ٹی-٣" اور گوگل کے "ایل اے ایم ڈی اے" جیسے بڑے لینگوئج
ماڈلز نے آواز کی کلوننگ کے ساتھ مل کر اے آئی کی تخلیقی صلاحیتوں میں بے پناہ
اضافہ کیا ہے، جس سے 'ڈیپ فیک' اور حقیقت کے قریب ترین ڈیجیٹل مشابہت کا وجود ممکن
ہو گیا ہے۔
غم کے معاملات میں اے آئی کا استعمال
غم سے نمٹنے کے لیے اے آئی ٹولز کی ایک
مثال "ہیئر آفٹر اے آئی" ہے جو متوفی افراد کے ورچوئل ورژن بناتا ہے۔
اگرچہ کچھ لوگ اسے غمگین عمل میں ممکنہ سکون کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن یہ رضامندی،
رازداری، اور اے آئی سے تیار کردہ مواد کی فلسفیانہ حیثیت کے بارے میں تحفظات بھی
پیدا کرتا ہے۔ اخلاقی تقاضے صارفین کی پسند و ناپسند کی پیش گوئی کرنے اور ذاتی
معلومات کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے اے آئی کے
استعمال تک پھیلے ہوئے ہیں۔
ڈیجیٹل جنازوں میں ثقافتی تبدیلی
اے آئی میں اختراعات نے چین میں ڈیجیٹل جنازے کی خدمات ادا کر کے اپنی اہمیت اجاگر کی ہے، جہاں اے آئی ٹولز میت کے حقیقی
نظر آنے والے اوتار بناتے ہیں۔ روایتی تہواروں کے دوران مرنے والوں کے ساتھ بات چیت
کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال غم سے نمٹنے کے لیے ایک جدید طریقہ کار کی عکاسی
کرتا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کو ان ڈیجیٹل تفریحات میں سکون ملتا ہے، لیکن غمگین
لمحات میں جذباتی طور پرممکنہ منفی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اختتامی رائے
جیسے جیسے ٹیکنالوجی زندہ اور مردہ کے
درمیان خطِ فاصل کو کم کرتی ہے، معاشرہ فوت شدہ افراد کی ڈیجیٹل نقلیں اور چیٹ
بوٹس بنانے کے متعلق تحفظات سے دوچار ہوتا ہے۔ اخلاقی تحفظات، ماحولیاتی اخراجات،
اور ڈیجیٹل لافانیت کے ارد گرد جذباتی پیچیدگیاں ایک محتاط اندازِ فکر کی ضرورت پر
زور دیتی ہیں۔ جیسا کہ ہم اس نئے دور میں داخل ہورہے ہیں جہاں موت اب اتنی حتمی نہیں
ہوگی جتنی پہلے تھی، ڈیجیٹل بعد کی زندگی کے پیچیدہ منظر نامے کو جانچنے کے لیے
تکنیکی ترقی اور اخلاقی ذمہ داری کے درمیان ایک مضبوط توازن کی ضرورت ہے۔
Post a Comment